[go: up one dir, main page]
More Web Proxy on the site http://driver.im/مندرجات کا رخ کریں

نطق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مصطفٰی کمال اتاترک 1927ء میں ترکی کی قومی اسبلی میں نطق پیش کر رہے ہیں۔

"نطق" وہ تقریر ہے جو جدید ترکی کے بانی راہنما مصطفٰی کمال اتاترک نے 1927ء میں ترکی کی قومی اسبلی سے خطاب میں کی۔ مسلسل چھ روز تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں مصطفٰی کمال اتاترک نے قریب ساڑھے چھتیس گھنٹے خطاب کیا اور خود اس خطاب کو "نطق" کا نام دیا۔ اپنے چھ روزہ اس خطاب میں انھوں نے ترکی میں بادشاہت کے خاتمے اور ترکی کے زوال سے عروج تک پہنچنے کی ہمت اور کوشش کو بیان کیا اور مستقبل میں ترکی کے لیے کامیابی کے تسلسل کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مصطفٰی کمال اتاترک کے اس خطاب کی پہلی بار اشاعت 1927ء میں "عثمانی زبان" میں ہوئی جس کا رسم الخط عربی زبان کے مطابق تھا۔ اس کے بعد اسے انگریزی، فرانسیسی، جرمن، روسی، فارسی، ترکمانی اور قازق زبان میں بھی شائع کیا گیا۔ فروری 2011ء میں پروفیسر ڈاکٹر احمد بختیار اشرف اور پروفیسر ڈاکٹر جلال صوئیدان نے اس کا اردو ترجمہ کیا اور اسے انقرہ میں قائم سرکاری ادارہ "اتا ترک مرکز ِمطالعہ " نے شائع کیا۔

آغاز

[ترمیم]

مصطفی کمال اتاترک تقریر کا آغاز کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب وہ جنگ آزادی کا آغاز کرنے کے لیے سامسون میں اترے تو اس وقت عثمانی سلطنت کس حال میں تھی:

"حضرات،

19 مئ 1919 کو سامسون میں اترا تو اس وقت عمومی صورت حال اور منظرنامہ کچھ اس طرح تھا: طاقتوں کا وہ گروہ، جس میں عثمانی سلطنت بھی شامل تھی، جنگ عظیم میں شکست کھا چکا تھا۔ عثمانی افواج ہر محاذ پر پسپا ہو چکی تھیں۔ سیورے میں جو جنگ بندی کا معاہدہ ہوا اس کی شرائط ذلت آمیز تھیں۔ جنگ عظیم کی طوالت سے قوم تھکاوٹ سے چکناچور اور مفلوک الحال ہو چکی تھی۔ قوم اور ملک کو جنگ عظیم میں جھونکنے والے اپنے بچاو کی خاطر وطن سے فرار ہو گئے۔ سلطنت اور خلافت کے عہدے پر فائز تنزل پزیر واحد الدین کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے محض اپنی ذات اور اپنے تخت کو بچانے کے لیے گھٹیا تدابیر کرنے لگا۔ کابینہ کا سربراہ داماد فرید پاشا کمزور، ڈرپوک اور عزت نفس سے عاری تھا، وہ محض سلطان کی خواہشات کا مطیع اور ہر اس تجویز پر گردن جھکانے کو تیار تھا جو ان کے اقتدار کو بچا سکے۔

اتحادی طاقتوں نے جنگ بندی کی شرائط پر قائم رہنے کو ضروری نہ سمجھا۔ چنانچہ مختلف حیلوں بہانوں سے ان کے جنگی بیڑے اور فوج استنبول میں مقیم رہی۔ ادانا پر فرانسیسیوں نے اور عرفا، ماراش اور آنتپ پر انگریزوں نے قبضہ جمایا۔ انطالیہ اور قونیہ میں اطالوی دستے داخل ہو گئے جبکہ مرزیفون اور سمسون پر انگریزی فوج نے تسلط قائم کر لیا۔ جگہ جگہ غیر ملکی افسر، اہلکار اور ان کے خاص ایجنٹ خوب فعال نظر آنے لگے۔ بالآخر 15 مئ 1919 کو، یعنی واقعات کا سلسلہ شروع ہونے سے چار روز پہلے، یونانی فوجیں اتحادی طاقتوں کی رضامندی سے ازمیر میں داخل ہوگئیں۔"[1]

زیر غور بچاؤ کے راستے

[ترمیم]

مصطفی کمال اس کے بعد صورت حال سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی مختلف تدابیر اور اختیار کیے جانے والے بچاو کے ممکنہ راستوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:

"حالات کی اس ہولناک سنگینی کے پیش نظر، جہ عموماََ تو ہر جگہ اور خصوصاََ تمام ولایتوں میں نمایا ہو چکی تھی، بعض معروف شخصیات نے اپنے تئین صورت حال کی بہتری کے لیے تدابیر اختیار کرنی شروع کر دیں۔ اس کا نتیجہ بعض تنظیموں کے قیام کی صورت میں نظر آیا۔  چنانچہ مثال کے تور پر ادرنہ اور اس کے گرد و نواح میں "انجمن طراقیا پاشا ایلی" کے نام سے ایک انجمن قائم ہوئی۔ مشرق میں ارض روم اور العزیز میں "یونین برائے دفاعِ حقوقِ ملی صوبہ جاتِ شرقیہ" قائم ہوئی جس کا صدر مقام بھی استنبول میں تھا۔ اسی طرح طرابزون میں سوسائٹی کا نام "دفاعِ حقوق" تھا جبکہ استنبول میں "لیگ برائے علیحدگی طرابزون و اضلاع" موجود تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ازمیر میں بعض محبّ وطن نوجوانوں نے شہر پر متوقع قبضے کے آثار 13 مئ سے دیکھنا شروع کر دیے تھے چنانچہ انھوں 14 مئ کی شب حالات کی درگرگونی پر سوچ بچار کے لیے میٹنگ بلائی جس میں اصولی طور پر اتفاق کیا گیا کہ شہر پر یونانیوں کے قبضے کی، جو عملی طور پرایک واضح حقیقت تصور کی جا رہی تھی، سخت مخالفت کی جائے گی اور 'الحاق' کو روکا جائگا۔"[1]

اتاترک اس کے بعد بچاؤ کے راستوں پر تفصیلی بحث اور مطالعہ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ان انجمنوں اور سوسائٹیوں پر بھی بات کرتے ہیں جو قومی حق اور مفاد کے خلاف سرگرم تھیں۔ ان موضوعات پر بحث کرنے کے بعد اتاترک عثمانی فوج کا احوال تفصیلی طور پر بیان کرتے ہوئے اپنی انسپکٹری کے فرائض کے یختیارات پر بھی بات کرتے ہیں۔ اس کے بعد اتاترک بچاو کے راستوں پر غور کرتے ہوئے اس سلسلے میں تین تجاویز کو نکات کی صورت میں بیان کرتے ہیں:

"حضرات! اب آپ ہی بتائیے کہ ان حالات میں بچاؤ کے لیے کون سا فیصلہ کیا جا سکتا تھا؟ جیسا کہ میں پہلے وضاحت کرچکا ہوں۔ اس سلسلے میں تین تجاویز سامنے آئیں:

برطانیہ سے تحفظ طلب کرنا۔

امریکہ کو تولیتی قوت تسلیم کیا جائے

ان دونوں کے حامی وہ لوگ تھے جو سلطنت عثمانیہ کی سالمیت کو کسی ایک طاقت کے تحفظ میں دینے کو ترجیح دیتے تھے، بجائے مختلف قوتوں کے درمیان اس کے بٹ جانے کے۔

تیسری تجویز یہ تھی کہ ملک میں ہر علاقے کو اجازت دی جائے کہ وہ مقامی طور پر اپنی اہلیت کے مطابق آزادانہ اور خود مختارانہ اقدام کرے۔ چنانچہ بعض اضلاع نے اس علیحدگی کے نظریے کی مخالفت کرتے ہوئے سلطنت کا ناگزیر حصہ بن کر رہنے کی کوشش کی جبکہ دوسروں نے مختلف نقطہ نظر اپناتے ہوئے ریاست کی ٹوٹ پھوٹ کو ایک اٹوٹ حقیقت تصور کر لیا اور محض اپنے بچاو کی تدابیر کرنے لگے۔"[1]

بچاؤ کا صحیح راستہ

[ترمیم]

اتاترک نے ان تجاویز کے جواب میں کچھ یوں کہا:

"حضرات! میں نے ان تینوں تجاویز میں سے کسی ایک کو بھی درست اور مناسب نہیں سمجھا۔ کیونکہ ان کے افکار اور دلائل ناقص اور بے بنیاد تھے۔"[2][1]

اس سلسلے میں اتاترک اپنا فیصلہ بتاتے ہیں اور پھر اس کی وضاحت بھی کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ کیونکر سب سے زیادہ قوم کے حق میں تھا۔[3]

"حضرات! ان حالات میں ایک ہی حل ممکن تھا اور وہ یہ کہ ایک ایسی ترک ریاست قائم کی جائے جس کی آزادی اور خود مختاری کو ساری دنیا بغیر کسی تحفظ کے غیر مشروط طور پر تسلیم کر لے۔یہ تھا ہمارا نصب العین جس کو استنبول سے روانگی سے پہلے ہی ہم نے اپنے سامنے رکھ لیا تھا اور اناطولیہ میں سامسون کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی اس پر عمل شروع کر دیا۔"[2][1]

دو ٹوک مؤقف

[ترمیم]

اتاترک دو ٹوک مؤقف اپناتے ہوئے اپنے مستقبل کے افکار کا کھل کر اظہار کرتے ہوئے اورسلطنت ِعثمانیہ کی معزولی کا عقلی دلیل سے دفاع کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں :

"بادشاہی اور خود مختاری کا فیصلہ کبھی علمی بحث و مباحثے سے نہیں کیا جاتا ، بلکہ انھیں طاقت سے ہتھیانا پڑتا ہے۔عثمانی خاندان نے ترکوں کی خود مختاری کو اپنے قبضے میں کیے رکھا اور چھ صدیوں تک ان پر راج کیا ۔ اب ترک قوم نے موثر طریقے سے اپنی خود مختاری کو واپس پا لیا ہے ... یہ ایک مکمّل حقیقت ہے ... جو حضرات یہاں موجود ہیں اگر اس حقیقت کو اس کی اصل روشنی میں دیکھیں تو ہم سب اس بات پر اتفاق کریں گے۔وگرنہ ، حقائق پھر بھی غالب رہیں گے، مگر چند سر ضرور کٹیں گے ۔" [1]

یوں اتاترک نے واضع کر دیا کہ اس معاملے پر مزید بحث کی کوئی گنجائش نہیں .

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث Soydan, Celal ;Ashraf, A.B (2017)۔ نطق۔ Pakistan: Jumhoori Publications۔ صفحہ: pages=,1,2,5,7۔ ISBN 978-969-652-111-2 
  2. ^ ا ب "Nutuk (English)"۔ A Speech Delivered By Mustafa Kemal Atatürk 1927 Aka. Nutuk In English Aka. The Great Speech.pdf 
  3. "Six Day Speech of Atatürk" (PDF)۔ Mustafa Kemal Atatürk’s Six-Day Speech of 1927: Defining the Official Historical View of the Foundation of the Turkish Republic