[go: up one dir, main page]
More Web Proxy on the site http://driver.im/مندرجات کا رخ کریں

جہاد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

جہاد سے مراد کسی نیک کام میں انتہائی طاقت و کوشش صرف کرنا اور ہر قسم کی تکلیف اور مشقت برداشت کرنا ہے۔

جہاد کا لفظی معنی

[ترمیم]

امام راغب اصفہانی جہاد کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اَلْجِهَادُ والْمُجَاهَدَةُ : اِسْتِرَاغُ الْوُسْعِ فِيْ مُدَافَعَةِ العُدُوِّ. (راغب الصفهانی، المفردات : 101)

ترجمہ: دشمن کے مقابلہ و مدافعت میں فوراً اپنی پوری قوت و طاقت صرف کرنا جہاد کہلاتا ہے۔

جہاد اورآزمائش

[ترمیم]

جہاں دوسری جنگوں میں دنیا دار قوموں کے دل گوناگوں دنیاوی اور نجی اغراض و مقاصد سے لبریز ہوتے ہیں۔ کہیں ملک گیری کی ہوس کارپرداز ہوتی ہے، کہیں مال و دولت اکٹھا کرنے کی حرص کا غلبہ ہوتا ہے تو کہیں نام و نمود اور شہرت و نام وری کی آرزو زمزمہ پرداز ہوتی ہے وہاں مومن کا جہاد فی سبیل اللہ خالصتاَ ایک للہیٰ عمل ہے۔ مجاہد کا دل ذاتی اغراض سے پاک اور صرف رضائے الہیٰ کی تمنا لیے ہوتا ہے۔ اسے نہ مال و دولت سے غرض ہوتی ہے نہ غنیمت کی آرزو، نہ جاہ و جلال کا عارضہ لاحق ہوتا ہے ،نہ نام و نمود کی ہوس۔ وہ فقط کفر و باطل کے قلعے کو مسمار کرکے اور طاغوتی قوتوں کو مٹا کر خدا کی زمین پر خداکی حکومت قائم کرنے کے لیے ہی اپناتن من دھن کی بازی لگاتا ہے۔ وہ اس عارضی ٹھکانے کو ظلم و ستم سے پاک کرنے کی تمنا میں ہی جنگ و جدل کی صعوبتوں کو لبیک کہتا ہے اور قربانیوں پر قربانیاں دیتا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ یا تو جام شہادت پی کر واصل بحق ہو جاتا ہے یا فتح مند ہو کر اس خاکدان کو انوار الٰہی سے منور کر دیتا ہے۔ اللہ کے وجود پر یقین کرنا تو اس قدر مشکل نہیں۔ اللہ کی اس ساری کائنات کے ہوتے ہوئے کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کوئی یہ باور کرلے کہ اس کا پیدا کرنے والا کوئی نہیں البتہ قیامت پر یقین پیدا کرنا ایمان ہی کی دولت سے ممکن ہو سکتا ہے اورایمان اللہ کی دین ہے جسے چاہے دے، اس میں شک نہیں کہ اس کائنات اور اس کے اصولوں کو بغور دیکھنے سے قیامت کا وجود یقینی طور پر نظر آ سکتا ہے مگر یہ علم بھی اسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، جس کا سینہ ایمان کی روشنی سے منور ہو۔ تاہم قیامت کا یقین ہی تو ہے جو انسان کو گناہوں سے باز رکھتا ہے اور نیکی پر مائل کرتا ہے اور اسی قیامت کے یقین کے سبب ایک سپاہی شہادت کی طلب میں موت کی آغوش کو اپنی بہترین پناہ تصور کرتا ہے اور ایک دانائے راز سمجھتا ہے کہ وہ خدا جس نے اس کائنات کو عدل پر پیدا کیا، یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ ہر انسان کو اپنے گناہوں اور اپنی نیکیوں کا بدلہ نہ دیا جائے اور یہ بدلہ موت کے بعد قیامت میں ہی دیا جا سکتا ہے، اس زندگی میں تو دکھ اور خوشی عمل کی بنا پر بعض اوقات نہیں حاصل ہوتے۔ بعض بدکردار دندناتے پھرتے ہیں اور بعض نیکوکار رنج و مصائب میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ’’ جو کوئی محنت کرتا ہے وہ اپنے ہی لیے محنت کرتا ہے بے شک اللہ تعالیٰ سارے عالم سے بے نیاز ہے ‘‘۔ ( العنکبوت 6 )۔ آدمی جہاد کرے یا کوئی دوسرا نیک عمل کرے ،اس میں سراسر اس کی اپنی بھلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو بہت بڑا غنی ہے اور انسان تو جہاں ایک طرف عمل کا پابند ہے دوسری طرف اللہ کے فضل کا بھی محتاج ہے اور حق بات تو یہ ہے کہ انسان کو عمل کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح ہمیں دو سبق حاصل ہوتے ہیں پہلا یہ کہ عمل کے بغیر کچھ نہیں ملتا البتہ فضل خداوندی کامعاملہ اس سے مستثنیٰ ہے، دوسرا یہ کہ محتاج اللہ نہیں بلکہ محتاج بندہ ہے اور جو محتاج ہوتا ہے وہ اپنی حاجت کے حصول کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ساتھ فرما دیا۔ ’’اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اچھے عمل کیے ،ہم ان کے گناہ ان سے دور کرکے رہیں گے اور ہم ان کو ان کے اعمال کا زیادہ اچھا بدلہ دے کر رہیں گے۔ (العنکبوت 7 ) تو گویا نیک کام کرنے سے آدمی کے گناہ بھی دھلتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نیکی کا بدلہ استحقاق سے بھی زیادہ دیتے ہیں۔ ساری تجارتو ں سے بہترین تجارت جہاد ہے۔ جہاد کرنے والا جہاد کے بدلے اللہ کی مغفرت اور جنت خریدتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات نصیب ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’اے ایمان والو! میں تم کو ایسی سوداگری بتاؤں جو تمھیں ایک دردناک عذاب سے بچائے۔ اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں مال اور جان سے لڑو اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہ تمھارے حق میں بہتر ہے۔ وہ تمھارے گناہ بخشے گا اور تمھیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور باغوں کے اندر ستھرے مکان ہوں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے او ر ایک اور چیز بھی جسے تم بہت چاہتے ہو اور وہ ہے اللہ کی طرف سے مدد عنقریب اور خوشی سنا دے ایمان والوں کو، اے ایمان والو! تم اسی طرح اللہ کے مددگار ہو جاؤ۔ جس طرح کہ عیسیٰ ابن مریم نے اپنے حواریوں سے کہا کون ہے جو اللہ کی راہ میں میری مدد کرے گا تو انھوں نے کہا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں۔ ( الصف 10 تا 14)۔ جہاد کے ظاہری فائدے یا تکالیف تو ہر آدمی کو نظر آ سکتے ہیں لیکن جہاد کے حقیقی فائدے باطنی ہیں جن کا تعلق آخرت سے ہے اور جو نظر نہیں آتے مگر اس آدمی کو نظر آ سکتے ہیں جس کا ایمان کامل ہو اور آخرت پر اس کا یقین ہو ۔

جہاد کا اصطلاحی معنی

[ترمیم]

شریعت اسلامی کی اصطلاح میں ’’دین اسلام کی اشاعت و ترویج، سربلندی و اعلاء اور حصول رضائے الٰہی کے لیے اپنی تمام تر جانی، مالی، جسمانی، لسانی اور ذہنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو وقف کرنا جہاد کہلاتا ہے۔‘‘جہاد کے عناصر ترکیبی اوراخلاق کی اہمیت: صلح اور امن و امان اگرچہ بہترین چیزیں ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ شر پسند افراد اور شر پسند قومیں صلح جو افراد اور صلح جو قوموں کو آرام سے بیٹھنے نہیں دیتے۔ صلح کے حصول کے دو ہی طریقے ہیں ایک تو یہ کہ ایک دوسرے کے آگے جھک جائے اور اس طرح فساد کا خطرہ ٹل جائے دوسرا یہ کہ صلح جو فتنہ پسند کا مقابلہ کرے۔ پہلی صورت میں فساد کا خطرہ ٹل جانا ایک مشکل امر ہے جیسا کہ دنیا کے طور طریقے بتا رہے ہیں دوسری صورت مقابلے کی ہے لیکن مقابلہ کرنے والوں میں بھی اگر ایک فریق ظاہرا کمزور اور دوسرا طاقت ور ہو تو جنگ کے ٹل جانے کا امکان بہت ہی کم ہے۔ طاقت ور کمزور کی کمزوری کے پیش نظر جنگ برپا کرنے میں جری ہو گا اس لیے چاہیے کہ حتی الوسع بڑھ کر جنگی تیاری کی جائے تاکہ طاقت ور کو حملہ کرنے کی جرات نہ ہو اور اس طرح جنگ کا خطرہ ٹل جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قران حکیم میں فرمایا۔ ’’ اے مسلمانو! ان سے مقابلہ کے لیے جس قدر بھی تم سے ہو سکے قوت کے سامان اور پلے ہوئے مضبوط گھوڑے تیار رکھو تاکہ تمھارا رعب چھایا رہے۔ تمھیں کیا خبر تمھارے اور اللہ کے دشمن کہاں کہاں ہیں۔ ( الانفال 60 )اگر اللہ چاہے تو کافروں کو چشم زدن میں عذاب الٰہی سے تباہ کرکے رکھ دے لیکن جدال و قتال کا سلسلہ اس لیے مقرر کیا کہ مسلمانوں کو آزمائے اور انھیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکلیف اٹھانے اور قربانیاں دینے کا موقع بہم پہنچائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’کہ جنگ کے موقعے پر کافروں کو قتل کرنے سے باک نہ کرو، ان کے بڑے بڑے شریروں کو کیفر کردار تک پہنچا دو اور ان کے جتھے توڑ دو تاکہ ان کا غرور ٹوٹے اور شاید ایمان کی طرف متوجہ ہوں۔ تمھاری قربانی ضائع نہ ہونے دی جائے گی بلکہ تمھیں طرح طرح کے انعاموں سے نوازا جائے گا لیکن جب کفار تمھارے قیدی ہو جائیں تو ان میں سے فقط ان آدمیوں کو قتل کرو جن کا جرم ایسا ہو کہ قابل معافی نہ ہو سکے یا جن کا زندہ چھوڑ دینا مزید فتنے کا باعث ہو ورنہ قیدیوں کو قتل مت کرو بلکہ یاتو انھیں فدیہ لے کر چھوڑ دو یا بغیرفدیہ لیے محض احسان کرکے آزاد کر دو اور اپنے اخلاق کریمانہ سے ان کو متاثر کرو شاید کہ وہ اسلام کی خوبیوں کو سمجھیں اور کفر و شرک کو چھوڑ کر دین حق کی طرف مائل ہوں اور یہی اسلامی جہاد کا اصلی مقصود ہے‘‘۔ اپنے نفس کی اصلاح جہاد سے مقدم ہے اور یہ تقدیم اس لیے ہے کہ جب تک آدمی آدمی نہ بن جائے اور اپنی تمام خواہشات اور شہوات کو مغلوب کرکے اللہ کا نہ ہو رہے۔ اس وقت تک وہ نہ تو جہاد فی سبیل اللہ کی حقیقت سمجھ سکتا ہے اور نہ ٹھیک طرح سے جہاد ہی کر سکتا ہے۔ اصلاح نفس ہو جائے گی تو انسان جہاد میں نہ تو مال و دولت یا لوٹ مار کے لالچ میں نکلے گا نہ اپنی بہادری کی دھاک بٹھا کر شہرت حاصل کرنے کی غرض سے بلکہ وہ ٹھیک اپنے اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی اور اس کے دین کی سربلندی کی غرض سے تلوار اٹھائے گا۔ اس طرح اگر شہید ہو گا تو اللہ کے ہاں شہادت کا مرتبہ پائے گا اور جو غازی ہو گا تو خدا کی زمین کو ظلم وستم اور کفر و باطل سے پاک کرنے کی سعی کرے گا نیز جنگ میں جو مشکلات اور مصائب ہوتے ہیں انھیں صبر و تحمل سے برداشت کرے گا اور موت کا خوف دل میں نہ رکھے گا اور کمانڈر کا حکم د ل و جان سے مانے گا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ بہترین سلوک کرے گا۔ اصلاح نفس سے عاری آدمی ان سب باتوں کے خلاف کرے گا اور خود اپنے لیے اور دوسروں کے لیے وبال جان بن کر اجتماعی شکست کا باعث ہو گا۔ جنگ کا فیصلہ کرنے میں جن عوامل کا قطعی ہاتھ ہے مثلا ڈسپلن، تدبیر، شجاعت ،استقامت اور جنگی مہارت۔ یہ تمام کے تمام اخلاقی قوت کا نتیجہ ہیں تعداد اور اسلحہ اگرچہ ظاہرا دو بڑے عنصر نظر آتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے اور جنگی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک یہ دونوں عنصر کبھی فیصلہ کن عنصر ثابت نہیں ہوئے۔ قرون اولیٰ کے مسلما نوں کو جب یہ کہہ کر ڈرایا گیا کہ غنیم ایک بہت بڑا لشکر جرار اور بے پناہ ساز و سامان اور اسلحہ لے کے آ رہا ہے تو انھوں نے نہایت اطمینان سے کہہ دیا کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور واقعی اللہ ہی کافی ثابت ہوا۔ مٹھی بھر مسلمان نہایت بے سروسامانی کی حالت میں جہاں بھی گئے وہاں فتح و کامیابی نے ان کے قدم چومے اور دشمن نے اپنا تمام ساز و ساما ن چھوڑ کر راہ فرار اختیار کی۔ اس لیے ہر وہ فوج جو فتح و آبرو مندی کو اپنا شعار بنانا چاہے وہ اخلاقی قوتوں کو مضبوط سے مضبوط تر بناتی جائے اور اخلاقی قوتوں کا سرچشمہ دین متین ہے جس نے اللہ کے دین کو مضبوطی سے اپنایا اس نے ایک بہت بڑے اور مضبوط قلعے میں پناہ لی ۔

جہاد کی اقسام

[ترمیم]

جہاد کو مسلسل عمل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ شریعتِ اسلامیہ کی رو سے اس کی درج ذیل اقسام ہیں:

  1. جہاد بالعلم
  2. جہاد بالمال
  3. جہاد بالعمل
  4. جہادبالنفس
  5. جہاد بالقتال

جہاد بالعلم

[ترمیم]

یہ وہ جہاد ہے جس کے ذریعے قرآن و سنت پر مبنی احکامات کا علم پھیلایا جاتا ہے تاکہ کفر وجہالت کے اندھیرے ختم ہوں اور دنیا رشد و ہدایت کے نور سے معمور ہو جائے۔

جہاد بالعمل

[ترمیم]

جہاد بالعمل کا تعلق ہماری زندگی سے ہے۔ اس جہاد میں قول کی بجائے عمل اور گفتار کی بجائے کردار کی قوت سے معاشرے میں انقلاب برپا کرنا مقصود ہے۔ جہاد بالعمل ایک مسلمان کے لیے احکامِ الٰہیہ پر عمل پیرا ہونے اور اپنی زندگی کو ان احکام کے مطابق بسرکرنے کا نام ہے۔

جہاد بالمال

[ترمیم]

اپنے مال کو دین کی سر بلندی کی خاطر اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کو جہاد بالمال کہتے ہیں۔

جہاد بالنفس

[ترمیم]

جہاد بالنفس بندۂ مومن کے لیے نفسانی خواہشات سے مسلسل اور صبر آزما جنگ کا نام ہے۔ یہ وہ مسلسل عمل ہے جو انسان کی پوری زندگی کے ایک ایک لمحے پر محیط ہے۔ شیطان براہ راست انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اگر نفس کو مطیع کر لیا جائے اور اس کا تزکیہ ہو جائے تو انسان شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

جرات، شجاعت اور جوش جہاد

[ترمیم]

کوئی فوج خواہ کتنی ہی تربیت یافتہ اور بہترین ہتھیاروں سے لیس کیوں نہ ہو اور اعداد و شمار میں ریت کے ذروں سے بھی بڑھ کر کیوں نہ ہو۔ جب تک اس کے سپاہی جرات اور شجاعت کے وصف سے متصف نہ ہوں گے کامیابی کی بہت کم امید ہے۔ اس کے مقابلے میں گنتی میں کم اور ادنیٰ ہتھیاروں سے لیس فوج کے سپاہی اگر جری اور شجاع ہوں گے تو ان سے کامیابی اور کامرانی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ بہادر قومیں عموما بہت ساری خوبیوں کی مالک ہوتی ہیں۔ انھیں اپنے وعدے کا پاس ہوتا ہے۔ وہ مہمان کی قدرومنزلت کو سمجھتی ہیں۔ وہ شرافت اور نجابت کے تقاضوں کو جانتی ہیں۔ وہ بے عزتی، بے ؔ آبروئی اور بے غیرتی کی زندگی پر موت کو ترجیح دیتی ہیں۔ وہ اگرچہ کینہ توز ہوتی ہیں مگر دشمنی میں بھی شرف کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں اور دشمن کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کی قائل نہیں ہوتیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ شجاعت اور سخاوت کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ بہادر آدمی لازما سخی ہوتا ہے کیونکہ میدان جنگ میں اپنی جان پیش کر دینا بھی سخاوت ہے۔ اگر دو فوجیں برابر کی ہوں اور جنگ کا فیصلہ نہ ہوتا ہو تو اس تعطل کو ختم کرکے فیصلہ کن بات کرنے والی بات جوش کی زبان سے ادا ہوتی ہے۔ اسی طرح جب ایک فوج مسلسل لڑائی کرتے کرتے تھکن سے چور ہو جاتی ہے۔ سپاہیوں کے بازو شل اور حوصلے پست ہو جاتے ہیں تو جوش ہی ایک ایسی چیز ہے جو تھکے ہوئے بازووں کو نئے سرے سے طاقت عطا کرتا ہے۔ افسردہ دلوں میں زندگی کی نئی لہر دوڑا دیتا ہے۔ تھکی ہاری فوج آن کی آن میں سرگرم پیکار ہو جاتی ہے اور ایسا ایک بھر پور حملہ عام طور پر فیصلہ کن ہو تا ہے کیونکہ مخالف فوج بھی اسی طرح تھک کر چور ہو چکی ہوتی ہے۔ بعض اوقات ایسی حالت میں ایک شخص کے جوش و خروش نے جنگ کی کایا پلٹ کر رکھ دی ہے۔ جنگ یرموک میں ایک بار جب مسیحی مسلمانوں کو دھکیل کر خیموں تک لے آئے تو خیمہ میں بیٹھی ہوئی مسلمان عورتوں نے خیموں کی چوبیں اکھاڑ کر دشمن پر حملہ کر دیا۔ اس واقعہ نے مسلمانوں کو اتنا متاثر کیا کہ وہ جوش و غضب میں دشمن پر ٹوٹ پڑے اور پھر کبھی ان کو اپنے خیموں کے قریب پھٹکنے نہ دیا ۔ تاریخ اسلامی جوش جہاد کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ حضرت ابوعبیدہ ابن الجراح کے سامنے ایک جنگ میں آپ کا باپ آیا مگر آپ نے پروا نہ کی اور جوش ایمانی میں اپنے باپ کو قتل کر دیا۔ جنگ موتہ میں جب تین ہزار مسلمانوں نے اپنے آپ کو دشمن کے علاقے میں ایک لاکھ فوج کے مقابل میں دیکھا تو مجلس مشاورت قائم کی کہ آنحضور کو حالات سے آگاہ کیا جائے مگر عبد اللہ ابن رواحہؓ جو ایک آّتش بیان خطیب تھے۔ ایسی تقریر کی کہ سب مقابلے پر آمادہ ہو گئے۔ جنگ بدر کے لیے جب آنحضرت ﷺ مجاہدوں کا انتخاب فرما رہے تھے تو ایک بچے کو دیکھا جو اپنی ایڑیاں اٹھا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ اونچا ہے۔ آپ ﷺنے اسے چھوٹا سمجھ کر نظر انداز کرنا چاہا مگر وہ بضد تھا۔ لہذا آپ ﷺنے اجازت فرما دی۔ اس کے ساتھ ایک اور لڑکا کھڑا تھا۔ آپ ﷺنے اسے اجازت نہ دی تو وہ رونے لگا اور عرض کیا کہ مجھے اس دوسرے لڑکے سے کشتی لڑوایئے۔ جب کشتی ہوئی تو اس نے پہلے لڑکے کو پچھاڑ ڈالا اور اس طرح جہاد میں جانے کی اجازت حاصل کی۔ یہی وہ دونوں لڑکے تھے جنھوں نے ابوجہل کو قتل کیا اور خود شہید ہو گئے ۔ جنگی جوش اگر لڑائی کے وقت اگر شجاعت کی حدوں سے متجاوز ہو جائے تو اسے تہور کا نام دیا جاتا ہے۔ اس حالت میں مجاہد کو قطعا نہ تو اپنے بچاؤ کا خیال ہوتا ہے نہ زخم یا موت کا سوال۔ وہ شدت جوش میں ؔ آگے بڑھتا ہے اور دشمن پر ہر چیز سے بے پروا ہو کر غضبناک شیرنی کی طرح ٹوٹ پڑتا ہے۔ تہور ایک ایسی کیفیت ہے کہ بعض اوقات ان ہونی باتیں بھی ہو جاتی ہیں اور ناممکنات کا دائرہ بھی سمٹ کر ممکنات میں آ جاتا ہے۔ صاحب تہور پر اس وقت ایک وجدانی کیفیت طاری ہوتی ہے اور وہ اس حالت میں وہ کچھ کر گزرتا ہے کہ عام حالت میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاتا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے خیبر کے جس سنگین دروازے کو تن تنہا ہاتھ ڈال کر اکھاڑا اور اپنے سر کے اوپر سے پیچھے پھینک دیااس کا وزن ایک سو بتیس من تھا اور جسے ؔ آٹھ مضبوط آدمی مل کر بھی اٹھانا تو درکنار زمین سے اچک تک نہ سکے۔ کیپٹن سرور شہید، یونس شہید اور میجر طفیل شہید کے کارنامے تہور کے تحت آتے ہیں۔ میجر عزیز بھٹی شہید کا کارنامہ تہور کے ساتھ استقلال اور استقامت کا ایک نادر الوجود مرقع ہے۔ جواں سال شہید راشد منہاس کی تہور میں ڈوبی ہوئی بے مثال قربانی اس کی معصومیت کے ساتھ دلوں میں محبت کی کسک پیدا کرتی ہے ۔ تہور کے معنے سخت جوش کے ہیں حتیٰ کہ آدمی ایسی کیفیت میں ہر انجام سے بے خبر ہو جاتا ہے۔ تاریخ اسلامی ایسی مثالوں سے پر ہے لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا تہور خیبر کے روز مشہور ہے۔ جب حضرت علیؓ قلعے کی طرف بڑھے تو آپؓ نے قلعہ کے دروازے کو ہاتھ ڈالے اور اسے اکھاڑ کر اپنے سر کے اوپر سے پیچھے اچھال دیا۔ اس دروازے کا وزن ایک سو بتیس من تھا۔ آٹھ قوی آدمی اسے زمین سے اچک نہ سکتے تھے۔ پھر خیبر کا مشہور پہلوان مرحب یہ رجز پڑھتا ہوا آپؓ کے مقابل ہوا:۔ قد علمت خیبرانی مرحب شاک السلاح بظل مجرب اذا الحروب اقبلت تلھب ’’ خیبر کو معلوم ہے۔ کہ میں مرحب ہوں جو زبردست ہتھیار چلانے والا بہادر اور آزمودہ کار ہے۔ جب جنگ پیش آتی ہے۔ تو بھڑک اٹھتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے مقابلے میں رجز پڑھا:۔ اذالزی سمتنی امی حیدرہ کلیث غا بات کریہہ المنظرہ اکیلہم بالصاع کیل السندرہ ’’ میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدرہ (شیر کابچہ) رکھا۔ جنگ کے شیروں کی طرح ہیبتناک ہوں۔ جن کو سندرہ کے پیمانے سے تولتا ہوں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے مرحب پر تلوار سے وار کیا۔ مرحب دو حصوں سے چر کر جا گرا۔

جہاد بالقتال

[ترمیم]

یہ جہاد میدان جنگ میں کافروں اور دین کے دشمنوں کے خلاف اس وقت صف آراء ہونے کا نام ہے جب دشمن سے آپ کی جان مال یا آپ کے ملک کی سرحدیں خطرے میں ہوں۔ اگر کوئی کفر کے خلاف جنگ کرتا ہوا شہید ہو جائے تو قرآن کے فرمان کے مطابق اسے مردہ نہ کہا جائے بلکہ حقیقت میں وہ زندہ ہے۔ ارشاد باری تعالٰیٰ ہے:

وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انھیں مت کہا کرو کہ یہ مردہ ہیں، (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمھیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔

— 


نزول حکم جہاد

[ترمیم]

جہاد بالقتال کا حکم نبوت کے مدنی دور میں نازل ہوا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے قریش اور مسلمانوں میں بدر کے مقام پر غزوہ ہوا، جس میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ كيونكہ جہاد ميں جان لی اور دی جاتی ہے اور جان لينا ہميشہ سے الہامی شريعتوں ميں ممنوع رہا ہے۔۔یہ فقرہ یہاں لکھا پایا گیا لیکن یہ درست نہیں کیونکہ جب حضرت موسیٰ 1400 قبل مسیح میں بنی اسرائیل کو مصر سے لے کر نکلے تھے۔ صحرائے سینا میں جبل طور کے پاس پڑاؤ کے زمانے میں آپ کو تورات عطا کی گئی۔ وہاں سے پھر شمال مشرق کی طرف کوچ کرنے اور فلسطین پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا گیا۔ جہاد کے اس حکم سے انکار کی پاداش میں بنی اسرائیل کو صحرا نوردی کی سزا ملی۔ اسی دوران میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون دونوں کا یکے بعد دیگرے انتقال ہو گیا۔ صحرا نوردی کے دوران پروان چڑھنے والی نسل بہادر اور جفاکش تھی۔ انھوں نے حضرت موسیٰ کے خلیفہ حضرت یوشع بن نون کی سرکردگی میں جہاد کیا جس کے نتیجے میں فلسطین فتح ہو گیا۔۔تو یہ درست نہیں کہ

سب سے پہلے مسلمانوں كو جہاد كی اجازت دی گئی۔ يہ اجازت مسلمانوں كو سب سے پہلے جب دی گئی تو ساتھ اس كی وجہ يہ بيان كی كہ يہ لوگ اس لیے لڑ سكتے ہيں كہ ان پر ظلم ہوا ہے۔ قرآن ميں آيا ہے:[1]

جن سے جنگ کی جائے، انھیں جنگ کی اجازت دی گئی، اِس لیے کہ اُن پر ظلم ہوا ہے اور اللہ یقینا اُن کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ وہ جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے، صرف اِس بات پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔

— 

جہاد بالقتال کے لیے کچھ بنیادی شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے، جن کے بغیر جہاد انسانیت کے لیے محض فتنہ و فساد کا باعث بنتا ہے، جس کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ جہاد کی بنیادی شرائط میں درج ذیل شامل ہیں:

جہاد اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ عوام الناس کو فردا فردا، جتھوں یا تنظیمیوں کی صورت میں جہاد کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔

جہاد کی تلقین

[ترمیم]

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد کی سخت تلقین فرمائی ہے۔ کافروں اور منافقوں کے خلاف جہاد کرنے کے لیے فرمایا۔ ’’ اے نبی ﷺ! آپﷺ جہاد کیجئے کافروں سے اور منافقوں سے اور ان پر سختی کیجئے، ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہہ ہے ‘‘۔ ( التحریم 9) اور اہل کتاب کے خلاف جہاد کے لیے فرمایا۔ ’’ اہل کتاب میں سے جو لوگ نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور نہ روز آخرت پر نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام ٹھہرائی ہیں اور نہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں، ان سے لڑو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں، اس حال میں کہ وہ زیردست ہو کر رہیں ‘‘۔ ( التوبہ 29) اور عامتہ المسلمین سے فرمایا ہے۔ ’’ اے ایمان والو! اپناتحفظ کرواور پھر دستہ دستہ کوچ کرو یا اکٹھے ہو کر‘‘۔ ( النساء 71 ) اور نبی کریم ﷺ سے فرمایا۔ ’’ اے نبی ﷺ! آپ مسلمانوں کو جہاد کے لیے آمادہ کرتے رہیں، عجب نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے اور اللہ بڑے ہی زور والا ہے اور بڑی سزا دینے والا ہے۔ ( النساء 84 )۔ فرمایا۔ ’’ اے مسلمانو! اگر تم دنیاوی زندگی کی محبت میں محو ہو کر جہاد کے لیے نہ نکلو گے تو اللہ تمھیں ایک دردناک سزا دے گا اور تمھارے بدلے کوئی اور قوم پیدا کر دے گا اور تم اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکو گے ۔ جہاد اس لیے کیا جاتا ہے کہ کفار کا زور ٹوٹ جائے اور وہ اسلامی ممالک پر چڑھ دوڑنے کی ہمت نہ پائیں۔ کفار خدانخواستہ اگر اسلامی ممالک پرحملہ کرکے غالب آ جائیں توجہاں مسلمانوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے خاک میں مل جانے کا خدشہ ہے وہاں خود اسلام کو خطرہ لاحق ہے لیکن انسانی طبیعت بالعموم آرام اور عیش کوشی کی طرف راغب رہتی ہے اور جنگ و جدل کی صعوبتوں سے کنارہ کش رہنا چاہتی ہے۔ موت کا خوف بھی دلوں میں جاگزین ہوتا ہے اور اپنی پیاری چیزیں چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا مگر دفاع سے غفلت جہاں ایک طرف آزادی کی نعمت سے محروم کر دیتی ہے وہاں اخلاقی پاکیزگی اور علو ہمتی جیسی صفات سے بھی معرا کر دیتی ہے، اس لیے ہر کمانڈر اور ہر حاکم کایہ فرض ہے کہ وہ عامتہ المسلمین کو جہاد کی ترغیب دیتا رہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو فرمایا ’’ مسلمانوں کو قتال فی سبیل اللہ پر آمادہ کرتے رہی ئے۔ عجب نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے‘‘۔ (النساء 84) جہاں دوسرے مذاہب نے رہبانیت اور ترکِ دنیا پر زور دیا ہے وہاں اسلام کی ساری تعلیم ایک پاکباز، سپاہیانہ معاشرے میں زندگی گزارنے کے متعلق ہے۔ اسلام کے تمام عقائید اسی روش کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ خود مسلمان قوم کو ایک سرسری نظر سے دیکھنے سے ہی سپاہیانہ صفات اور سپاہیانہ اخلاق مثلا جرات، شجاعت، سخاوت، اولوالعزمی، صبر و رضا، ہمت و برداشت نظرآتے ہیں حتیٰ کہ مسلمان اپنے اس روبہ زوال دور میں بھی جہاں تک کہ ان مندرجہ بالاصفات کاتعلق ہے ،روئے زمین کی ساری قوموں کے درمیان ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ جہاں تک جنگی تربیت کا تعلق ہے، مسلمان کی زندگی کا ہر پہلو ایک تربیت یافتہ سپاہی کی زندگی کا مظاہرہ کرتا نظر آتا ہے۔ اسلام کے سارے ارکان اسی فوجی تربیت کے اصول پر جاری و ساری ہیں۔ مسلمان کی روز مرہ کی زندگی اور زمانہ جنگ کی زندگی میں سرمو فرق نہیں۔ مسلمان ایک پیدائشی سپاہی ہے اور تھوڑی سی تربیت اسے دنیا کا بہترین سپاہی بنا دیتی ہے ۔ برائی کو روکنا ہر فرد مومن کا فرض ہے کیونکہ جس قسم میں برائی کو روکنے کا جذبہ مفقود ہوجاتا ہے وہ قوم تباہ ہو جاتی ہے اور وہ لوگ بھی جو نیک اس قوم میں ہوتے ہیں بدوں کے ساتھ محض اس لیے تباہی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ انھوں نے برائی کے کام اپنی آنکھوں سے دیکھے مگر منع نہ کیا۔ بنی اسرائیل پر جن وجوہات کی بنا پر لعنت کی گئی، ان میں سے اللہ تعالیٰ نے ایک وجہ قران حکیم میں یہ بھی بتائی ہے کہ وہ برائی کوروکتے نہ تھے۔ بدی کو روکنے کے تین طریقے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے بتائے یعنی ہاتھ سے روکنا، زبان سے روکنا، دل میں برا سمجھنا مگر یہ آخری درجہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ قرار دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ’’ اللہ عام لوگوں پر خاص لوگوں کے عمل کے باعث اس وقت تک عذاب نازل نہیں کرتا جب تک کہ ان میں یہ عیب پیدا نہ ہو جائے کہ اپنے سامنے برے اعمال ہوتے دیکھیں اور انھیں روکنے کی قدرت رکھتے ہوں مگر نہ روکیں۔ جب وہ ایسا کرنے لگتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ عام او ر خاص سب پر عذاب نازل کرتا ہے‘‘۔ ( مسند آحمد) اسی طرح آپ ﷺ نے جابر سلطان کے سامنے حق بات کہنے کو جہاد اکبر فرمایا۔ مسلمانوں کی جنگ نظریاتی جنگ ہوتی ہے وہ نہ تو ہوس ملک گیری کے جذبے سے مغلوب ہو کر جنگ برپا کرتے ہیں نہ اس میں ان کی کسی ذاتی انتقامی جذبے کو دخل ہوتا ہے۔ مسلمان کی جنگ اللہ کی جنگ ہے۔ شیطان کے خلاف رحمان کی جنگ ہے۔ کفر و بے دینی کے خلاف دین و حق کی جنگ ہے۔ ظالم کے خلاف مظلوم کی جنگ ہے غرض کہ خدا کی زمین پر خدا کی حکومت کے قیام کی جنگ ہے۔ جب کوئی قوم خدا کی زمین پر اس قدر فساد میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ اس کو سبق پڑھانا ضروری ہو جاتا ہے تو ایسی قوم پر اللہ تعالیٰ مسلمان قوم کو مسلط کر دیتا ہے تاکہ مسلمان قوم ظلم کے ان اثرات کوخدا کے نور سے مٹا دے جو اس ظالم قوم نے اپنے فتنہ و فساد سے پھیلا رکھے ہوتے ہیں۔ یہودیوں، مسیحیوں ہندووں وغیرہ پر اللہ نے مسلمانوں کو اسی نظریے کی بنا پر مسلط کیا تھا مگر فرما دیا کہ اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے گا اوروہ ایسے لوگ ہیں جن کو اگر اللہ زمین پر حکومت دے تو نماز قائم کریں، زکوۃ دیں ،نیک کام کا حکم دیں اور بدی سے روکیں ۔

جہاد کے دوران احتیاطیں

[ترمیم]

جہاد میں مقابلے کے وقت مجاہدین کو قرانی ہدایات کے بارے میں اللہ تعالیٰ قران حکیم میں فرماتے ہیں ۔ ’’ اے ایمان والو! جب تمھارا مقابلہ کسی جماعت سے ہو جائے تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ فلاح پاؤ اور اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کرتے رہو اور آپس میں جھگڑا مت کرو ورنہ کم ہمت ہو جاؤ گے اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرتے رہو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور ان لوگوں کی مثل نہ ہو جاؤ جواپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور دکھلاوے کے لیے نکلے اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے تھے حالانکہ ان کے اعمال اللہ کی دسترس سے باہر نہ تھے اور جب شیطان نے ان کے اعمال انھیں خوشنما کرکے دکھائے اور کہا کہ آج کوئی بھی تم پر غالب آنے والا نہیں اور میں تمھارا حامی ہوں، پھر جب دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہوئیں تو شیطان الٹے پاؤں بھاگا اور کہنے لگا۔ میں تم سے بری الذمہ ہوں۔ میں وہ دیکھ رہا ہوں جوتم نہیں دیکھ سکتے۔ میں تو خدا سے ڈرتا ہوں اور اللہ شدید سزا دیتے ہیں ۔( الانفال 45 تا 48 )۔ ’’ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا کانھم بنیان مرصوص‘‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’ اللہ تو ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں اسی طرح مل کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں ۔( الصف 3 )۔ اللہ تعالیٰ نے اس تشبیہ میں بہت سی باتوں کو یکجا کر دیا ہے۔ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح لڑنے والے سپاہی جن باتوں کا مظاہرہ کر رہے ہوں گے وہ فقط بہادری نہیں بلکہ ڈسپلن، باہمی محبت و موافقت، ایمان اور کئی ایک اور اچھی باتوں کا مظاہرہ بھی کر رہے ہوں گے۔ ترکوں کے متعلق مشہور ہے کہ جب 1914 ء کی جنگ عظیم میں انھوں نے انگریزی فوج کو کوت العمارہ کے میدان میں گھیرے میں لیا تو انھوں نے لمبی لمبی زنجیروں سے قطار در قطار اپنے آپ کو جکڑ لیا۔ چھ ماہ کے مسلسل محاصرے کے بعد انگریز جرنیل نے ہتھیار ڈال دیے۔ روداد اس محاصرے کی بڑی خوفناک ہے۔ ’’ہاتھ تلوار پربھروسہ اللہ پر‘‘۔ یہ ایک باریک بات ہے مگر اللہ جسے چاہے سمجھا دے ،ہاتھ تلوار پراور بھروسا اللہ پر کے معنی یہ ہیں کہ اللہ پر بھروسا کرنے کے لیے ذرائع سے کلی طور پر قطع نظر کرکے اللہ کو آزمائش میں نہ ڈالنا۔ یعنی جہاں انسان کے لیے ذرائع کا حصول ممکن ہووہاں بھی ان ذرائع کواللہ پر بھروسا کرکے نظر اندار کر دینا۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک آدمی آنحضور ﷺکے پاس آیا۔ تو آپ ﷺنے پوچھا۔ اونٹنی کہاں چھوڑی۔ تواس نے کہا۔ اللہ کے بھروسے پر باہر چھوڑ آیا ہوں۔ تو آپ ﷺنے فرمایا۔ پہلے اونٹنی کا گھٹنا باندھ پھر اللہ پر بھروسا کر۔ اس کے مقابلے میں دوسری مثال یہ ہے کہ انسان ذرائع سے بے بس و مجبور ہو اور اللہ پر بھروسا رکھے۔ جس طرح ایک بار آنحضرت ﷺصحرا میں کسی درخت کے سائے میں آرام فرما رہے تھے اور تلوار آپ ﷺنے درخت سے لٹکا رکھی تھی۔ دفعتہ ایک کافر آیا اور آپﷺ کی تلوار قبضے میں کرکے تلوار سونت کرکھڑا ہو گیا۔ آپ ﷺکی آنکھ کھلی تو کافر نے کہا۔ محمدﷺ! اب آپ کو میرے ہاتھ سے بچانے والا کون ہے؟تو آپ ﷺنے بے دریغ فرمایا۔ ’’میرا اللہ ‘‘۔ یہ سن کر کافر پر ایسی دہشت طاری ہوئی۔ کہ تلوار ہاتھ سے گر گئی۔ آپ ﷺنے تلوار اٹھالی اور فرمایا۔ اب تو بتا۔ تجھے میرے ہاتھ سے بچانے والا کون ہے؟۔ کافر فورا ایمان لے آیا۔ رسول اللہ ﷺکے زمانے میں خندق کھودتے تھے۔ آج کل مورچے کھودتے ہیں۔ اصولا خندق اور مورچے میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں حفاظت کے لیے کھودی جاتی ہیں۔ مورچہ کھودتے وقت عموما سپاہیوں میں ایک خاص قسم کا جذبہ نمودار ہوتا ہے۔ جنگ خندق میں جب مدینہ کے گرد خندق کھودی جا رہی تھی تو مہاجرین و انصار خندق کھودتے۔ اپنی پیٹھ پر مٹی لادتے اوریہ کہتے جاتے۔ کہ ’’ ہم وہ ہیں جنھوں نے محمد صلعم سے جہاد اسلامی کی بیعت کی ہے۔ جب تک زندہ ہیں مسلمان رہیں گے ‘‘۔ اور رسول اللہ ﷺان کو جواب دیے جاتے۔ ’’ اے میرے اللہ آخرت کی بھلائی کے سوا کوئی بھلائی نہیں۔ پس تو مہاجرین اور انصار میں برکت عطا فرما‘‘۔ رسول اللہ ﷺپتھر اٹھاتے جاتے اور فرماتے جاتے۔ لو لا ما اہتدیتنا۔’’ ہدائت اگر نہ کرتا۔ تونہ ملتی ہم کو راہ حق ‘‘۔ جنگ احزاب کے روز رسول اللہ ﷺمٹی اٹھاتے۔ مٹی سے آپ ﷺکے پیٹ کارنگ چھپ گیا تھا اور آپ ﷺ فرماتے جاتے تھے۔ ’’ اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے اور نہ ہم صدقہ دیتے اورنہ نماز پڑھتے۔ پس تو ہم پر اطمینان نازل فرما اور جب ہم دشمن سے مقابلہ کریں تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ بے شک ان لوگوں نے ہم پر ظلم کیا ہے۔ جب یہ کوئی فساد کرنا چاہتے ہیں تو ہم ان کی بات میں نہیں آتے ‘‘۔

  • عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر وار نہیں کیا جائے گا۔
  • غیر مسلح لوگوں پر وار نہیں کیا جائے گا۔
  • درختوں کو کاٹا نہیں جائے گا۔
  • شک کی بنا پر کسی کو قتل نہیں کیا جائے گا۔

اگر کوئی کافر جنگ کے دوران موت کے خوف کی وجہ سے کلمہ پڑھ لے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل نہ کیا جائے کیونکہ اسلام جنگ و جدل کا نہیں بلکہ امن و اصلاح کا دین ہے۔ احادیث میں تو یہاں تک تاکید ملتی ہے کہ اگر کوئی کافر سر پر لٹکتی تلوار دیکھ کر اسلام قبول کر لے تو اس کے قتل سے ہاتھ روک لینا ضروری ہے۔

ایک مرتبہ ایک صحابی ایک کافر کو قتل کرنے ہی والے تھے کہ اس نے کلمہ طیبہ پڑھ لیا، مگر صحابی نے اس کے کلمے کی پروا نہ کی اور اسے قتل کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سخت الفاظ میں اس قتل کی مذمت کی اور صحابی کے اس قول پر کہ اس کافر نے محض جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا تھا، ارشاد فرمایا:

أفَلاَ شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ؟ (مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب تحريم قتل الکافر بعد أن قال لا إله إلا اﷲ، 1 : 96، رقم : 96)

ترجمہ : کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس مقتول کے ورثاء کو پوری دیت ادا کرنے کا حکم فرمایا۔

جہاد کے آداب اور ذمہ داریاں

[ترمیم]

دشمن پر پینترے بدل بدل کر وار کرتے رہو اور اسے سنبھلنے کی مہلت نہ دو اور اگر کبھی خدانخواستہ تمھیں چشم زخم بھی لگ جائے تو ہمت نہ ہارو اور بد دل نہ ہو جاؤ۔ کیونکہ دشمن نے بھی اس مقابلے میں کافی نقصان اٹھایا ہو گا اور اس کا بھی جوڑ جوڑ درد کر رہا ہو گا۔ دشمن پر اس شدت سے بوجھ ڈالو اور اتنا بھر پور حملہ کرو اور اس طرح پئے در پئے حملے کرو کہ حوصلہ چھوڑ دے اور بوکھلا جائے۔ مسلمانوں کے شکست کھا کر دوبارہ جنگ پر آمادگی ظاہر کرنے کو اللہ تعالیٰ نے بہت پسند کیا ہے چنانچہ فرمایا ہے کہ جن لوگوں نے اللہ اور رسول ﷺ کے کہنے کو مان لیا بعد اس کے کہ ان کو چشم زخم لگ چکا تھا ان میں سے جو نیک اور متقی ہیں ان کے لیے اجر عظیم ہے۔ یہ واقع جنگ احد کا ہے جس میں مسلمانوں کو چشم زخم لگا۔ اور پھر تعاقب کے متعلق فرمایا ’’ مخالف قوم کے تعاقب میں ہمت نہ ہارو اگر تمھیں دکھ پہنچا تو وہ بھی دکھ اٹھائے ہوئے ہیں جیسے تم دکھ اٹھائے ہوئے ہو اور تم اللہ سے وہ امید لگائے ہوئے ہو جو وہ نہیں رکھتے ‘‘۔ یعنی تم کو تو اللہ کی نصرت اور آخرت کی بہتری کی توقع ہے اور تمھارے دل مضبوط ہیں حالانکہ وہ تو اس بات سے عاری ہیں ۔ حتی الوسع اور بغیر شدید جنگی ضرورت کے دشمن کی املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ تعمیر بہر حال تخریب سے اچھی ہے۔ ہاں البتہ اگر وہ املاک دشمن کے لیے فخر و غرور یا کفر و ظلم کا باعث ہو رہی ہوں اور یہ فخر و غروراور یہ کفر و ظلم اس شدت کا ہو کہ بغیر ان املاک کے ضائع کیے اس کاٹوٹنا محال ہو تو پھر ان املاک کو ضائع کر دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن ایسا تو فقط نہایت سنگین حالات اور شدید جذبہء دینی ہی کی صورت میں ہو سکتا ہے اور چونکہ اس کا معیار مقرر کرنا مشکل ہے اس لیے آنحضورﷺ نے اور آپ ﷺ کے بعدحضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی مسلمان لشکروں کو دشمن کی املاک کوضائع کرنے سے منع فرمایا اوریہی طریق کار بعد میں آنے والے خلفائے راشدہؓ کے دور میں رہا البتہ ایسی چیزیں جن کو مسلمان خود استعمال نہ کر سکتے ہوں اور یہ ڈر ہو کہ وہ دشمن کے لیے جنگی تقویت کا باعث ہوں گی تو ان کے ضائع کر دینے میں ہرج نہیں۔ جنگ خیبر میں صلح ہو جانے کے بعد جب اسلامی فوج کے بعض نئے رنگروٹ بے قابو ہو گئے اور انھوں نے غارت گری شروع کر دی تو یہودیوں کا سردار رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور کرخت لہجہ میں آپ ﷺ کو مخاطب کرکے بولا۔ اے محمد ؑ! کیا تم کو زیبا ہے کہ ہمارے گدھوں کو ذبح کرو ہمارے پھل کھا جاؤ اور ہماری عورتوں کو مارو؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فورا ابن عوفؓ کوحکم دیا کہ لشکر میں اجتمعو اللصلوۃ کی منادی کریں۔ جب تمام اہل لشکر جمع ہو گئے تو حضور ﷺ کھڑ ے ہوئے اور فرمایا۔ ’’ کیا تم میں سے کوئی شخص تخت غرور پر بیٹھا یہ سمجھ رہا ہے کہ اللہ نے سوائے ان چیزوں کے جو قران حکیم میں حرام کی گئی ہیں کوئی اور چیز حرام نہیں کی۔ خدا کی قسم!میں جو کچھ تم کو نصیحت کرتا ہوں اور جو امر و نہی کے احکا م دیتا ہوں وہ بھی قران کی طرح یا اس سے زیادہ ہیں۔ اللہ نے تمھارے لیے یہ جائز نہیں کیا ہے کہ اہل کتاب کے گھروں میں بلا اجازت گھس جاؤ۔ ان کی عورتوں کو مارو پیٹو اور ان کے پھل کھا جاؤ حالانکہ ان پر جو کچھ واجب تھا وہ تمھیں دے چکے ‘‘۔ ایک دفعہ سفر جہاد میں کچھ لوگوں نے کچھ بکریاں لوٹ لیں اور ان کا گوشت پکا کر کھانا چاہا۔ آپ ﷺکو خبر ہوئی تو دیگچیاں الٹ دیں اور فرمایا۔ ’’لوٹ کھسوٹ کا مال مردار سے بہتر نہیں ‘‘۔ فوجوں کی پیش قدمی کے وقت فصلوں کو خراب کرنا، کھیتوں کو تباہ کرنا، بستیوں میں قتل عام کرنا اور آتش زنی کرنا، جنگ کے معمولات میں سے ہے مگر اسلام کی رو سے یہ سب کچھ فساد میں شامل ہے اور سختی کے ساتھ اسے ناجائز قرار دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’ جب وہ حاکم بنتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلائے اور فصلوں اور نسلوں کو تباہ کرے مگراللہ فساد کو پسند نہیں کرتا ‘‘ ( البقرۃ 25 ) بلکہ اللہ کے رسول ﷺ نے تو یہاں تک فرما دیا ہے کہ’’ راستے میں دودھ دینے والے جانور مل جائیں تو ان کا دودھ دوہ کر پینا بھی جائز نہیں تاوقتیکہ ان کے مالکوں سے اجازت نہ لی جائے ‘‘۔ البتہ ضرورت کے وقت اس قدر اجازت دی گئی ہے کہ با آواز بلند تین مرتبہ پکارو تاکہ اگر کوئی مالک ہو تو آ جائے اور جب کوئی نہ آئے تو پی لو۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے شام و عراق کی جانب فوجیں بھیجتے ہوئے جو ہدایات دی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ بستیوں کو ویران نہ کرنا اور فصلوں کو خراب نہ کرنا ۔ اسلام دنیا میں آسودگی، آسانی اور فارغ البالی دیکھنا چاہتا ہے۔ دنیا کوتباہی اور بربادی کی حالت میں نہیں دیکھنا چاہتا۔ دنیا کی تعمیر بہر حال دنیا کی زبوں حالی سے بہتر ہے۔ اسی اصول کے ماتحت جنگ میں بھی مال و منال اور فصل و نسل کی تباہی سے حتی الوسع گریز و اجتناب کا سبق دیا گیا ہے۔ کوئی بھی مفید چیز اس وقت تک تباہ نہ کی جائے جب تک کہ کسی دینی، اخلاقی، سماجی یا جنگی مصلحت کا تقاضا نہ ہو۔ بنو نضیر کے محاصرے کے دوران بعض مسلمانوں نے کھجور کی ایک ادنی قسم کے درختوں کو اکھیڑنا شروع کیا تو بنو نضیر ( جو ایک یہودی قبیلہ تھا ) نے آنحضور ﷺ کو کہلا بھیجاکہ آپ ﷺ کا مذہب یہ اجازت دیتا ہے کہ درختوں کو کاٹا جائے تو اس پر آنحضور ﷺ اور مسلمان متفکر ہوئے مگر اللہ نے وحی کے ذریعے فرمادیا کہ جو لینہ (معمولی کھجور) کے درخت تم نے کاٹے وہ اللہ کے اذن سے تھا یعنی کاٹنے والوں کے سامنے جنگی مصلحت تھی لیکن اس کے بعد اس عمل کو ممنوع قرار دے دیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’ اور جن اہل کتاب نے ان (کافروں) کی مدد کی تھی۔ (اللہ نے ) انھیں ان کے قلعوں سے اتار دیا اور ان کے دلوں میں تمھارا رعب بٹھا دیا پھر بعض کو تم قتل کرنے لگے اور بعض کو قید کر لیا اور تمھیں مالک بنا دیا۔ ان کی زمین کا اور ان کے گھروں کا اور ان کے مال کا اور اس زمین کا بھی جس پر تم نے اب تک قدم نہیں رکھا ہے اور اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ ( الاحزاب 26۔ 27 ) اہل کتاب سے مراد یہاں یہود بنی قریظہ ہیں جو حوالیء مدینہ میں اپنے بڑے بڑے اور مضبوط قلعوں اور گڑھیوں میں قلعہ بند رہا کرتے تھے اور اس وقت تک مسلمانوں سے معاہدہ کیے ہوئے ان کے حلیف تھے بعد کو عہد شکنی کرکے قتل و اسارت دونوں کے مستحق پائے۔ اللہ تعالی نے یہ جو فرمایا ہے کہ اس زمین کا بھی جس پر تم نے اب تک قدم نہیں رکھا ہے یہ ایک پیشینگوئی ہے جواللہ تعالیٰ نے فرما دی۔ یہ اشارہ ہے قبائل یہود کی ساری زمینوں اور جائیدادوں کی طرف جو بالآخر مسلمانوں کے قبضہ میں آئے اور ان لفظوں کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔ قیامت تک جو علاقہ بھی مسلمانوں کے قبضہ میں آئے۔ سب اس میں داخل ہے ۔

مزید پڑھیے

[ترمیم]
  • اسلامی نقطہ نظر سے جہاد کے متعلق سوال و جواب (IslamQA) [1]
  • جہاد فی سبیل اللہ کے موضوع پر چند اردو فتاوٰی (محدث فتویٰ ) [2]
  • فوائد و مسائل اردو الفاظ سرچ متعلق جہاد (اردو اسلامک بکس) [3]
  • جہاد کے مسائل پہ سرچ کرنے کے نتائج (مکتبہ شاملہ اردو) [4]

حوالہ جات

[ترمیم]